حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علامہ محمد امین شہیدی امت واحدہ پاکستان کے سربراہ ہیں۔ انکا شمار ملک پاکستان کے معروف ترین علمائے کرام اور مذہبی اسکالرز میں ہوتا ہے، دلیل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرتے ہیں، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا پر ٹاک شوز، مذاکروں اور مذہبی محافل میں شریک دکھائی دیتے ہیں۔
علامہ امین شہیدی اتحاد بین المسلمین کے حقیقی داعی ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ ملکی اور عالمی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، وہ اپنی تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی نے "اتحاد بین المسلمین، مکتب تشیع کی مشکلات اور نصاب تعلیم" کے حوالے سے علامہ امین شہیدی صاحب کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو لیا جو پیش خدمت ہے۔(ادارہ)
حوزہ: الحمد للہ رہبر معظم کی مدبرانہ سوچ کے نتیجہ میں گذشتہ چند سالوں سے اتحاد بین المسلمین کا بہت اچھا مظاہرہ دیکھنے کو ملا ہے، پاکستان میں اس کے بارے میں بتائیں اور اس میں مزید بہتری اور خود شیعہ گروہوں کے درمیان اتحاد کے سلسلہ میں علماء کرام کی کیا ذمہ داری ہے؟
علامہ امین شہیدی: پاکستان چونکہ ایک ایسا ملک ہے جہاں پر مختلف اقوام مختلف کلچرز مختلف ثقافتیں مختلف فکریں مختلف مسالک اورفرقہ مشترکہ زندگی بسر کرتے ہیں چونکہ پاکستان کے اندر یہ اختلاف رنگ رنگ نسل زبان کلچرز عقیدے اور فکر کا ہے تو اس لئے پاکستان کے اندر زندگی گزارنا ایک لحاظ سے آسان ہے اور دوسرے لحاظ سے مشکل آسان اس لحاظ سے ہیں کہ ایسے معاشرے کے اندر باہمی رواداری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں مشکل اس حوالے سے زیادہ ہے کہ دشمن جب اس اختلاف سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اسی اختلاف کو ان تمام طبقات کے لئے زہر بنا دیتا ہے اور نتیجتا ایسے معاشرے کے اندر کشت و خون کا بازار گرم ہو جاتا ہے اس لئیے دونوں حوالوں سے توجہ کی ضرورت ہے پاکستان کے اندر چونکہ تشیع کے مقابلے میں بریلوی موجود ہے دیو بندی موجود ہے اہل حدیث موجود ہے کچھ اور فرقہ بھی موجود ہے تو اس لئے پاکستان کے اندر ہمیں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے رواداری کی فضا قائم کرنے کی شعوری کوشش کرنے کی ضرورت ہے شعوری طور پر پاکستان بچ بھی تب سکتا ہے جب ہمارے ہاں قومیتوں کے مسائل کو حساس نہ بنایا جائے اور فرقہ وارانہ مسائل کو کم سے کم رنگ دیا جائے اور اجتماعیت کی طرف فرقوں کو لایا جائے اس اعتبار سے یہ قرآن کی خواہش ہے کہ ہم معاشرے کے اندر فرقہ وارانہ امتیازات کے بجائے مشترکات کو فروغ دے سکے یہ قرآنی نکتہء نظر ہے اور اسی قرآنی نقطہ نظر کی حمایت اور اس کو آگے بڑھانے کا جو انتہائی عظیم فریضہ انجام دیا ہے وہ امام خمینی نے دیا ہے اور امام خمینی کے بعد رہبر معظم نے اس پر پوری توجہ دی ہے لہذا اگر حجاز والوں کے ان سوالات کا جائزہ لیا جائے جو رہبر معظم سے کئے گئے تھے اور رہبر معظم کا جو جواب آیا تھا تو وہ جواب یہ بتاتا ہے کہ معاشرے کے اندر اتحاد بین المسلمین امت کی وحدت اور یکجائی اور اختلافات کو کم سے کم کرنے کی ذمہ داری کتنی عظیم ذمہ داری ہے اور کتنی بڑی عبادت ہے اس پہ اگر ہم پاکستان کی صورتحال کو دیکھے تو امریکیوں کی طرف سے یورپ کی طرف سے عرب ممالک کی طرف سے پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ فضا پیدا کر نے کے لئے جتنا بڑا سرمایہ خرچ کیا گیا ہے اس کے مقابلے میں اگر آپ دیکھیں تو اس سرمایہ نے وہ کام نہیں کیا جو اس سرمایہ کو کرنا چاہیے تھا پاکستان کے اندر تحمل اب بھی موجود ہے پاکستانی مسلمانوں کے اندر اور ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور رواداری کا مظاہرہ اب بھی موجود ہے اب بھی شیعہ سنی ساتھ میں رہتے ہیں اب بھی بہت سارے علاقوں میں شیعہ مسجدوں میں سنی اور سنی مسجدوں میں شیعہ نماز پڑھتے ہیں اب بھی بہت سارے علاقوں میں شیعہ اجتماعات میں سنی شریک ہوتے ہیں اور سنی اجتماعات میں شیعہ شریک ہوتے ہیں حتی عزاداری کے جلوسوں اور مجالس میں اہل سنت شوق سے شرکت کرتے ہیں میلاد کے جلوسوں اور اجتماعات میں اہل تشیع شوق سے عبادت سمجھ کر شریک ہوتے ہیں شادیوں میں شریک ہوتے ہیں حتی باہمی رشتہ داریوں میں بھی اب بھی شیعہ اور سنی کی شادیاں ہوتی ہے چاہے لڑکی ادھر کی ہو یا ادھر کی ہو لڑکا ادھر کا ہو یا ادھر کا ہو اس کو رکاوٹ نہیں سمجھا جاتا یعنی دشمنوں کی اتنی ساری کوششوں کے باوجود اگر آج پاکستان کے اندر رواداری کی یہ فضا قائم ہے تو یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کو اور زیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے اس میں محنت کرنے کی ضرورت ہے، غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور وہ جو باہر کے لوگ ان اختلافات کو فروغ دینے کے حوالے سے عدم تحمل اور شدت پسندی کے فروغ میں رول ادا کرتے ہیں اس کے مقابلے کی ضرورت ہے اور یہ کام اہل علم طبقہ کا ہے اہل نظر طبقہ کا ہے اہل قلم طبقہ کا ہے اس طبقہ کا ہے جس سے معاشرہ زیادہ سے زیادہ فکری حوالے سے متاثر ہوتا ہے اس لئے اس کام کے لیے کتابوں کی صورت میں بھی، خطبوں کی صورت میں بھی ممبروں سے بھی محرابوں سے بھی مسجدوں سے بھی امام بارگاہوں سے بھی مدرسوں سے بھی اسی طرح ٹی وی سے ڈراموں کی صورت میں فلموں کی صورت میں اخبارات میں مقالات کی صورت میں ہر وہ کام جس سے معاشرے کے مزاج میں شدت کے بجائے تحمل کی کیفیت پیدا ہو رواداری کی کیفیت پیدا ہو اس کو فروغ دینا آج کے دور میں ہم۔سب کی ذمہ داری ہے اور اس سے خدا بھی خوش ہوگا اور رہبر معظم کے اس اعلی فکر کو تقویت بھی ملے گی یہ کام علماء کرام کا ہے کہ علماء کرام زیادہ سے زیادہ اس نکتے پر توجہ دیں اور اس کا آغاز اپنے مدارس سے کریں اپنی مسجدوں سے کریں اپنی دستگاہوں سے کریں اپنے خطبات اور اپنے ممبر سے کریں اور حوزہ ھائے علمیہ سے کریں اگر ایسا ہو سکے تو مستقبل میں آج کی نسبت اور زیادہ ہم بہتر اور روادار معاشرہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے انشاءاللہ تعالٰی۔
حوزہ: آپ کی نظر میں اس وقت تشیع پاکستان کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟اور حکومت پاکستان کا تشیع کے ساتھ رابطہ اور برتاؤ کیسا ہے؟
علامہ امین شہیدی: تشیع کے پیروکار پاکستان کے اندر اگر چہ ادبی حوالے سے دوسرے فرقوں کی نسبت نسبتا شاید کم ہو لیکن اپنی اجتماعی حیثیت کے حوالے سے میدان مبارزہ میں، میدان سیاست میں، میدان معیشت میں اور زندگی کے باقی پہلوؤں میں نہ صرف یہ کہ کمزور نہیں ہے دوسروں سے کم نہیں ہے بعض جگہوں میں مکتب تشیع کی طاقت کا اعتراف دشمن بھی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے شاید مکتب تشیع کے نظریات میں اتنی پختگی، شفافیت اور طاقت ہیں کہ عددی کمی کے باوجود مکتب کے نظریات کی بنیاد پر کوئی بھی سیاسی گروہ یا مذہبی گروہ مکتب تشیع کو پاکستان کے اندر نظر انداز نہیں کر سکتا لیکن گذشتہ اس عرصہ میں مکتب تشیع کو عملی طور پر ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے حوالے سے، دشمنان دین نے بھی ،دشمنان پاکستان نے بھی اور دشمنان انقلاب نے بھی بھرپور مہم بھی چلائی ،پیسہ بھی خرچ کیا اور انکی سازشیں بہت حد تک اثر انداز بھی ہوئیں پاکستان کے اندر،آن چیلنجز کو سمجھنا میرے خیال میں سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ کون کون سے محاذ ہے جہاں پر مکتب تشیع مشکل کا شکار ہے ان محاذوں کو اگر ہم سمجھ سکے تو اس کا علاج آسان ہے سب سے پہلے داخلی اختلافات ۔یہ داخلی اختلافات بھی دو نوعیت کے ہیں ایک جگہ سیاسی اختلافات ہے جس میں ہر گروہ اپنے نظریات لیکر چل رہا ہے اگر چہ انقلابیت میں سب برابر ہے اور سب شریک ہیں اور دوسری طرف عقائد کی ایک جنگ پاکستان میں تشیع پر مسلط کی جا چکی ہے جس کے نتیجے میں غالی اور مقصر کی جنگ ہے ،ذاکر اور علاماء کی جنگ ہے محراب اور مسجد کی جنگ ہے ،علی رب اور توحید کے قائلین کی جنگ ہے یہ جو داخلی جنگیں ہے ان داخلی جنگوں سے ہم سیاسی طور پر بھی کمزور ہو جاتے ہے اور اجتماعی ہماری حیثیت بھی ڈیمیج ہو جاتی ہے اور پھر جب کوئی اسطرح کا گروہ اٹھتا ہے کہ وہ بنیادی تشیع کے عقائد سے بے بہرا ہو ناواقف ہو اور چند گمراہ کن نعرہ لے کے اٹھے اور ان کے نعروں کی گونج بھی دور تک جائے تو نتیجتا اصل تشیع کی جگہ وہ جالی تشیع لے لیتی ہے اور تشیع کی اصلی روح نقصان اٹھاتی ہے ڈیمیج ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں لوگوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں لہذا ہمیں ان داخلی اختلافات کو ختم کرنے کے حوالے سے،داخلی گروہ بندیوں کے خاتمے کے حوالے سے اپنے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان یکسوئی اور ہماہنگی پیدا کرنے کے حوالے سے اختلافات کو کم سے کم کرنے کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ مشترکات پر ان تمام گروپوں کو اکھٹا کرنے کے حوالے سے دشمن کے مقابلے میں ان تمام گروہوں کو یکجا کرنے کے حوالے سے دشمن کی طرف سے ہونے والی ریشہ دوانیوں اور گوشوں کے مقابلے میں ملت کے ان تمام طبقات کے اندر ایک غیرت اور اجتماعی حمیت پیدا کر نے کے حوالے سے حتی وہ تمام لوگ جو بنیادی طور پر خود بد نیت نہیں ہے لیکن بیرونی سازشوں اور کچھ ابلیس صفت لوگوں کی باتوں میں آکر راہ حق سے منحرف ہو جاتے ہے انکو دوبارہ راہ راست پر لانے کے حوالے سے ہم سب کی ایک ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس پر سوچے اور اس مشکلات کو دور کرنے کے لیے راہیں تلاش کرے فطری راہیں بھی عملی راہیں بھی سیاسی میدان میں بھی اور دینی اور فکری اور عقیدے کے میدان میں بھی تشیع کی شناخت کو بہتر سے بہتر کرنے کے حوالے سے بھی اور غیر شیعہ طبقات کے درمیان تشیع کے علمی، فکری اور معنوی چہرے کو نمایاں کرنے کے حوالے سے بھی اگر ہم ان نکات پر کام شروع کرتے ہیں سوچتے ہے تو سوچنے کے بعد کام شروع کرنے کے بعدمیں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت زیادہ عرصہ نہیں چاہیے ک ہم تشیع کو ان تمام محاذوں پر ان تمام میدانوں میں مضبوط موقف کے ساتھ اٹھا بھی سکتے ہے۔
اور دوسروں کے سامنے اپنی دلیل کی قوت سے اور اپنی معنویت اور فکر کی قوت سے اپنی برتری اور مکتب کی برتری ثابت کر سکتے ہیں لہذا ان نکات پر توجہ کی ضرورت ہے میں نے صرف فہرست گنوائی ہے اسکی تفصیل میں میں نہیں گیا اگر اسی فہرست پر غور کیا جائے ان معاملات پر ہم سوچنا شروع کر دیں جتنے بھی ہمارے سیاسی گروپس ہے لیکن اس معاشرے کی بہتری چاہنے والے گروپس ہے اس معاشرے کو اٹھانا چاہتے ہے اس معاشرے کی خدمت کرنا چاہتے ہے لیکن طریقہ الگ الگ ہے ان تمام گروپوں میں اگر یہ شعور پیدا ہوجائےاور مشترکہ دشمن کے مقابلہ میں اپنے مشترکات کے ایک دوسرے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کی اپنے اندر ظرفیت ہم پیدا کر سکے تو یقینا اسکے نتائج بہت جلدی اور بہت دور تک انسان کے سامنے آئینگے اور اس سے ہم سب استفادہ کر پایئں گے۔
ہم اگر اپنی طاقت کی حفاظت کر سکے تو حکومتیں ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی!
البتہ اس میں ایک نقطہ کا اضافہ میں کروں گا کہ حکومتوں کو حکومت چلانے کے لیے عوام کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور اس اعتبار سے حکومتیں چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو جب وہ حکومت کرنا چاہتی ہے تو وہ عوام میں موجود مختلف نظریاتی گروپوں کی مدد لیتی ہےجن میں تشیع بھی شامل ہیں لہذا طاقت ور تشیع حکومتوں کو سوٹ نہیں کرتیں ہمیں طاقتور بننا ہے ہم اگر اپنی طاقت کی حفاظت کر سکے تو حکومتیں ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔حکومتوں کے رویہ بھی ہمارے حوالے سے تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن اگر ہم کمزور ہوئے تو پھر کمزوری کے نتیجے میں حکومتوں کے رویہ بھی اسی طرح کے بنتے ہے جس طرح کمزوروں کے مقابلے میں طاقت وروں کے رویے ہوتے ہیں لہذا اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم کسی سے گلہ کرنے کے بجائے اپنی طاقت کی بنیاد پر اپنے حقوق کے حصول کے میدان میں ثبات قدم دکھا سکے۔
حوزہ: الحمدللہ اس وقت آپ کو میڈیا کے تعلق سے ترجمان ملت تشیع سمجھا جاتا ہے، اس کامیابی کا راز کیا ہے؟
علامہ امین شہیدی: جو چیز اہم ہے وہ یہ نہیں ہے کہ میں پاکستان میں کیا کر رہا ہوں اور لوگ میرے بارے میں کیا سمجھتے ہے ایک حوزہ علمیہ قم کے فارغ التحصیل طالب علم یا فاضل کو پاکستان کے حوالے سے کم از کم اجتماعی ان مسائل کا ادراک ہونا چاہئے اگر ان مسائل کا ادراک ہے مطالعہ ہے سیاسی حالات کے حوالے سے اسکی نظر صائب ہے اور گہری ہے اپنے ملک کے حالات اور اجتماعی اور سیاسی حالات کے حوالے سے وہ بے خبر نہیں ہے اور ہر روز وہ رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے اپنے آپ کو اپڈیٹ رکھتا ہے اور مکتب کے نظریات اور مکتب کی بنیادوں کے حوالے سے بھی اسکا ذہن صاف ہے شفاف ہے اور کلیئر ہے یعنی اس کے نظریات واضح اور کلیئر ہے تو اس صورت میں پاکستان کے اندر بڑی آسانی کے ساتھ میڈیا کے میدان میں بھی، اخبارات کی دنیا میں بھی، اجتماعات میں بھی کانفرنسس میں بھی انسان آسانی کے ساتھ اپنے مکتب کی ترجمانی کر سکتا ہے ہم اپنے ہزاروں نواقص کے باوجود کوشش کر رہے ہیں کہ جتنا ہم سے ہو سکے دین کے چہرے کو پامال نہ ہونے دیں جس میں اہم ترین عنصر جو آپ کی کامیابی کی ضمانت ہے وہ آئمہ اہل بیت علیہ الصلوۃ والسلام سے ہمہ وقت توسل اور انہی پر تکیہ کرتے ہوئے ،انہی سے چاہتے ہوئے، انہیں کا توسل اختیار کرتے ہوئے میدان معرکہ میں قدم رکھنا ہے اگر ہم آگہی کے ساتھ ،شعور کے ساتھ ،مطالعہ کے ساتھ ،اپنے زمانے کے حالات سے باخبر رہتے ہوئے ،آئمہ علیہ الصلوۃ والسلام سے توسل کے ذریعے سے میدان میں اترتے ہے تو چاہے وہ میڈیا کا میدان ہو یا کہی اور انشاءاللہ تعالٰی ہمیں ناکامی نہیں ہوگی ۔ہم تو انتہائی ناقص لوگ ہے کمزور لوگ ہے اور شاید وہ شرائط ہم میں نہیں ہے لیکن آئمہ کی نظر عنایت کی وجہ سے اب تک الحمدللہ بچے ہوئے ہیں آفات اور بلیات سے اور اللہ نے شرمندہ نہیں ہونے دیا ہے آئمہ اہل بیت نے دشمنوں کے سامنے مخالفین کے سامنے شرمندہ نہیں ہونے دیا شاید اسکی بنیادی وجہ ہماری قابلیت نہیں ہے بلکہ آئمہ ہدی علیہ السلام کی نظر عنایت ہے اس چیز پر ہماری توجہ زیادہ ہونی چاہئے۔
حوزہ: نظامِ تعلیم اور نصاب کے ایشو میں کیا حقیقتاً تشیع کے لئے کوئی اہم مسئلہ اور مشکل ہے ؟
علامہ امین شہیدی: نظام تعلیم کا جہاں تک تعلق ہے نظام تعلیم صرف اہل تشیع سے مربوط اور متعلق نہیں ہے بلکہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کا تعلق پاکستان میں رہنے والے اٹھانوے پرسنٹ مسلمانوں کے ساتھ ہے نظام تعلیم میں جو مشکلات اس وقت درپیش ہے ان میں جن موضوعات کو ہمارے علماء نے ہماری مختلف اجتماعی تنظیموں نے اٹھایا ہے اگر چہ ان کا فوکس تشیع سے متعلق موضوعات پر زیادہ ہے جیسے نصاب سے اہل بیت کے تذکرے کے خاتمے کی نجس کوشش ہے اس کوشش کے حوالے سے یقینا ہمارے علماء کرام نے ہماری تنظیموں نے آواز اٹھائی ہے اور اچھی آواز اٹھائی ہے لیکن مسئلہ صرف یہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہمارے تعلیم کے اداروں کو سیکولر کر دیا جائے اور ایسا نصاب ترتیب دیا جائے جسکے نتیجے میں ہمارے بچے جب ان تعلیمی اداروں میں داخل ہوں تو جب ڈگری لے کے فارغ ہونا چاہے تو اس وقت مکمل طور پر ایک سیکولر بچے کی صورت میں معاشرے کے اندر قدم رکھ سکیں لہذا تعلیم کے مختلف شعبوں میں ان ویلیوز اور ان اقدار کا خاتمہ کیا جا رہا ہے جو کسی قوم کے اندر امنیت پیدا کرے ان تمام ویلیوز کو ختم کیا جارہا ہے جو قوموں کو غیرت مند بناتی ہے ،ان تمام مفاہیم کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے جسکے نتیجے میں قومیں اپنے اجتماعی مفادات کی حفاظت کر تی ہیں اخلاقیات کے حوالے سے، اجتماعیت کے حوالے سے، دشمن شناسی کے حوالے سے ،ظلم سے نبرد آزما ہونے کے حوالے سے، مظلوم کی حمایت کے حوالے سے، دنیا بھر کے نظامات کے مقابلے میں اسلام کی برتری کو بڑھنے کے حوالے سے اور بہت سارے ایسے موضوعات ہیں جنکو بڑے سلیقہ کے ساتھ اور طریقہ کے ساتھ پس پشت ڈال کر پاکستان کی بائیس کڑور سے زیادہ عوام کے بچوں کو اس سیکولر تعلیم کی طرف بھیجا جا رہا ہے جس سے یہ ساری حمیت معاشرے کے اندر ختم ہو جائے چونکہ ہمارے تعلیمی نظام میں جو مختلف ادارے فعال ہیں ان میں ناصبیت سے متاثر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے اس لئے جب یہ نعرہ اٹھا (one education one nation, one nation one education )یعنی ایک قوم اور ایک تعلیم ۔ تو اس نعرے کے ۔ نتیجے میں جب one education کا سبجیکٹ سامنے آیا تو ان ناصبیت سے متاثر افراد نے اپنے ان اداروں میں موجود گی کا یہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ کسی طرح سے ناصبی افکار کو نصاب میں زیادہ سے زیادہ داخل کیا جائے اور اہل بیت کے تذکرے کو کم سے کم کر دیا جائے اور بے روح کر دیا جائے لیکن وہ جو باقی اصل مسائل تھے جس سے پاکستان کی بائیس کڑور کی عوام متاثر ہوتی ہیں ان کی طرف حتی انہوں نے بھی توجہ نہیں دی لہذا ہمیں دو طرح سے مسائل کا سامنا ہے ایک ناصبیت زدہ نصاب اور دوسری طرف سیکولر تعلیمات ان دونوں کو پاکستان سے ختم کر نے کے لئے ایک شعوری اور اجتماعی جدو جہد کی ضرورت ہے۔
حوزہ: بعنوان شاگرد مکتب اہل بیت علیہم السلام جو کہ ایک عرصہ قم میں آپ نے گزارا ہے اس لحاظ سے آپکی طلاب کے لیے کیا نصیحت ہے؟
علامہ امین شہیدی: حوزہ علمیہ قم فکری و معنوی حوالے سے ایک بہت بڑا مرکز ہے اور طالب علم کیلئے جو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کہی کسی مقام تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اس حوزہ کے اندر اس کے لئے اور تمام وسائل اور تمام ذرائع موجود ہے اگر چہ کچھ مشکلات بھی ہے ان نعمتوں کے مقابلے میں یہ مشکلات انتہائی ناقابل چیز ہے اس اعتبار سے جب ایک شخص حوزہ علمیہ کے سمندر سے باہر نکل کر اپنے معاشرے میں قدم رکھتا ہے اور پریکٹیکل لائف کا عملی زندگی کا آغاز کرتا ہے تو اس عملی زندگی میں اس کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ حوزہ علمیہ جیسی ایک بہت بڑی نعمت سے اپنی زندگی میں وہ دور ہوچکی ہے اگر چہ ہمیں حکم یہی ہے کہ ہم زوات علمیہ سے اپنی۔ علمی پیاس بجھانے اور معنوی پیاس بجھانے کے بعد اپنے وطن کی طرف لوٹے اور وہاں پر خلق خدا کی خدمت کرے لیکن یہ جو حوزہ علمیہ کی اس معنوی فضا ،فکری فضا ،علمی فضا سے محرومیت ہے یہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا loss اور بہت بڑا نقصان ہے اس اعتبار سے جو حضرات چاہے طالبعلم ہو ،فضلاء ہو حوزہ علمیہ قم کی اس معنوی فضا میں موجود ہے ان کے پاس جتنا ٹائم ہے یہ ٹائم انتہائی اہم ٹائم ہے اس ٹائم کو زیادہ سے زیادہ utilise کرنے کی ضرورت ہے زیادہ سے زیادہ اس سے استفادہ کی ضرورت ہے اور استفادہ بھی دونوں طرح سے ایک حضرت معصومہ س کے اس گھر اور شہر کی معنوی فضا سے استفادہ، علمائے باطن سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونا ،علماء اخلاق علماء عرفان، اہل دل شخصیات اور وہ شخصیات جنکے الفاظ ملکوتی ہے ایسی شخصیات کو تلاش کرنا،انکے سائے میں زیادہ سے زیادہ ٹائم گزارنا اور انکے الفاظ سے انکی سانسوں سے انکے قرب سے زیادہ سے زیادہ فیض پانا یہ ایک پہلو ہے حوزہ علمیہ قم میں اپنی زندگی کے ان ایام کو utilise کر کے بہترین فیض کے اصول میں،اسی اس پہلو پر سب سے پہلے توجہ ہونی چاہیے۔
علمی حوالے سے محنت اپنی جگہ لیکن علمی حوالہ سے محنت سے پہلے پہلے تزکیہ نفس اور معنویات کی طرف توجہ زیادہ ہونی چاہئے۔
میں اس بات کا معتقد ہوں کہ علمی حوالے سے محنت اپنی جگہ لیکن علمی حوالہ سے محنت سے پہلے پہلے تزکیہ نفس اور معنویات کی طرف توجہ زیادہ ہونی چاہئے۔وہ چیز اگر درست ہو جائے تو علمی پہلو بھی درست ہو جاتا ہے تو اس اعتبار سے جو موجود وہاں پر شخصیات ہے بزرگان دین ہے ،اہل معنا ہستیاں موجود ہے خود حضرت معصومہ س کی ہمسائیگی اور انکے قبر اطہر کا سایہ ان چیزوں سے معنوی حوالے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ ہونا چاہیے اور علمی حوالے سے فقہ و اصول کی اپنی اہمیت ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن جب ہم عملی طور پر معاشرے میں قدم رکھتے ہے اور عام لوگوں کی زندگی میں جاتے ہیں تو وہاں پر ہمیں جس چیز کی ضرورت پڑتی ہے وہ قرآنی نکتہء نظر سے انسان شناسی ہے اور انسان کی نفسیات کو دیکھتے ہوئے دین کی تعلیمات کو اس کی نفسیات اس کی روانی کیفیّت اور اس کے مطابق ڈھال کر لقموں کی صورت میں انسانوں تک پہنچا نا ہے لہذا حوزہ علمیہ قم میں موجودگی کے دوران چند چیزوں پر انسان کو پوری توجہ دینی چاہیے علمی حوالے سے؛
1 ۔ایک دورہ فقہ پر اس کی پوری دسترس ہونی چاہیے یہ دسترس درس خارج کی مرہون منت نہیں ہے ضروری نہیں ہے کہ کوئی بندہ درس خارج پڑھے تو اس کو یہ دسترس حاصل ہو ،نہیں بلکہ ایک دورہ فقہ اس کو ہر صورت میں پوری محنت کے ساتھ پڑھنا چاہیئے اور اس پر عبور حاصل کرنا چاہیئے۔
2 ۔کلامی موضوعات میں ایک کلام کی مضبوط اور متقن کتاب پر اس کی پوری طرح دسترس ہونی چاہیے اور یہ کام حوزہ علمیہ قم میں رہ کر ہی کر سکتا ہے۔
3۔تیسری چیز جس کی انتہائی شدید ضرورت ہے وہ عرفان کے متون ہے ان متون میں سے کسی ایک متن کو اسطرح سےوہ پڑھ لے کہ عرفانیات کے حوالے سے اس کا ذہن کلیئر ہو چونکہ ہمارا معاشرہ صوفیہ کا زیادہ صوفیہ سے متاثر معاشرہ ہے اس معاشرے میں ان پہلوؤں کی بہت زیادہ ضرورت بھی ہے اور ان پہلوؤں کے حساب سے اگر انسان وارد ہوتا ہے صوفیانہ منیش روش اور ان کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے تو یہاں کے لوگوں کے اندر اس کی تاثیر زیادہ بہتر طور پر سامنے آسکتی ہے یہ تین موضوعات ہوئے
4۔ چوتھا موضوع کہ ہم بہرحال مکتب اہل بیت کے پیروکار ہے اس اعتبار سے مکتب اہل بیت پر ہونے والے اعتراضات اور اس مکتب پر اٹھائے جانے والے شبہات پر ہمیں دسترس حاصل ہونی چاہیے اس موضوعات کے حوالے سے ہمارے پاس قانع کر نے والا جواب ،علمی جواب ،متقن جواب قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہمارے پاس ہونا چاہیے یہ چار موضوعات ایسے ہے جنکی سب سے شدید ضرورت ہے ۔
5۔ اور پانچواں موضوع خود اہلسنت ہمارے خود مختلف مکاتب فکر کے نظریات، انکے عقائد اور انکے منابع حدیث میں میں موجود مختلف مسائل پر ایک گرفت اور ایک ایسا مطالعہ جس سے انسان ان کے متون کے حوالے سے ہمیشہ آگاہ رہے اور معاشرے میں کسی پوچھنے والے سوال کے جواب میں اس کا ذہن خالی نہ ہو ان پانچ موضوعات کو ہر صورت میں پیش نظر رکھنا چاہیے اگر ہم نے معاشرے کے اندر کام کرنا ہے باقی جہاں تک تدریس کا تعلق ہے اس سے کوئی اختلاف نہیں ہے جسکا جس طرح کا ذوق ہے اس حساب سے آپ ان متون پر عبور حاصل کرے چاہے وہ منطق ہو یا طبیعات ہو یا فقہ ہو یا اصول ہو چاہے کچھ بھی ہو لیکن اجتماع میں کام کرنے کے حوالے سے ان پانچ موضوعات کی بہت ضرورت ہے اب اس میں ایک پہلو جو ہمیشہ تشنہ رہتا ہے وہ ہے ہمارے اکثر فضلاء کا اپنی ہی حدیث کے منابع کے حوالے سے عدم آشنایی یہ بھی ایک انتہائی اہم موضوع ہے ایک حوزوی طالبعلم درس خارج پڑھنے کے بعد جب معاشرہ میں قدم رکھتا ہے تو کم از کم اس نے ایک دفعہ اس نے اپنی ہی حدیث کی کتابوں کا ایک دورہ کیا ہو پڑھا ہو اسی طرح سے ایک دورہ تفسیر کا ضرور کیا ہو پڑھا ہو اگر اس نے ایک دورہ حدیث اور ایک دورہ تفسیر کا انسان پڑھ کر سمجھ کر آجائے باقی وہ ان پانچ موضوعات کے ساتھ تو وہ یقینی طور پر موثر کامیاب اور معاشرے کے اندر اپنی جڑیں آسانی سے بنانے والا اور معاشرے کے ضرورت کے مطابق ایک بہترین مبلغ کا کردار ادا کر سکتا ہے تو اس اعتبار سے میرا خیال ہے یہ وہ نکات ہے جس پر ہمارے فضلاء کو ہمارے اہل علم کو اور حوزہ علمیہ قم میں موجود ان شخصیات کو جو مستقبل میں اپنے ملک میں جا کر فعال ہو نا چاہتے ہے ان کو ہر صورت میں توجہ دینی چاہیے۔